Wednesday, 10 December 2014

کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی

کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی​
میں چراغ، وہ بھی بُجھا ہوا میری رات کیسے چمک گئی​
مِری داستاں کا عروج تھا تِری نرم پلکوں کی چھاؤں میں​
میرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تِری آنکھ کیسے جھپک گئی​
بھلا ہم مِلے بھی تو کیا مِلے، وہی دوریاں وہی فاصلے​
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جِھجک گئی​
تِرے ہاتھ سے مِرے ہونٹ تک وہی انتظار کی پیاس ہے ​
مِرے نام کی جو شراب تھی کہیں راستے میں چھلک گئی​
تجھے بھول جانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں​
تِری یاد شاخِ گلاب ہے، جو ہوا چلی تو لچک گئی​

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment