کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی
میں چراغ، وہ بھی بُجھا ہوا میری رات کیسے چمک گئی
مِری داستاں کا عروج تھا تِری نرم پلکوں کی چھاؤں میں
میرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تِری آنکھ کیسے جھپک گئی
بھلا ہم مِلے بھی تو کیا مِلے، وہی دوریاں وہی فاصلے
تِرے ہاتھ سے مِرے ہونٹ تک وہی انتظار کی پیاس ہے
مِرے نام کی جو شراب تھی کہیں راستے میں چھلک گئی
تجھے بھول جانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں
تِری یاد شاخِ گلاب ہے، جو ہوا چلی تو لچک گئی
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment