Saturday, 6 December 2014

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو
گِلہ کرو کہ گِلہ بھی نہیں رہا اب تو
چنے ہوئے ہیں لبوں پر تیرے ہزار جواب
شکایتوں کا مزا بھی نہیں رہا اب تو
یقین کر جو تیری آرزو میں تھا پہلے
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو
وہ سُکھ وہاں کے خدا کی ہیں بخششیں کیا کیا
یہاں یہ دُکھ کہ خدا بھی نہیں رہا اب تو

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment