Monday, 14 October 2019

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

نعتِ سرورِ کونینﷺ

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم  دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
کہاں میں اور کہاں اس روضۂ اقدس کا نظارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارہ دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
مدینہ جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ، فضا سنجیدہ سنجیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبالؔ جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment