میں اب اُکتا گیا ہوں فُرقتوں سے
نکالوں کس طرح تجھ کو رگوں سے
جدائی تاک میں بیٹھی ہوئی تھی
محبت کر رہے تھے مشوروں سے
تجھے میں نے مجھے تُو نے گنوایا
دعائیں ہو گئیں ناں رد تمہاری
میں قائل ہی نہیں تھا فلسفوں سے
مِرے سب حوصلے مارے گئے ہیں
تمہاری کم سنی کے فیصلوں سے
تمہاری یاد خونی ہے، مِری بھی
لڑیں ہم کس طرح ان بھیڑیوں سے
وہ وحشت ہے کہ ہے وہ سوگ برپا
میں ہنستا تک نہیں ہوں قہقہوں سے
تمہارے غم سے ہم بے زار ہیں کیا
نہیں شاید، مگر، ہاں کچھ دنوں سے
ہمارے بیچ اک دیوار ہے اب
جسے اونچا کریں گے نفرتوں سے
عارف اشتیاق
No comments:
Post a Comment