عمرؓ اب کیوں نہیں آتا
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں
پڑے ہیں برف سے بچے
دسمبر لوٹ آیا ہے
عمرؓ اب بھی نہیں آیا
کسی کی بے رِدا بیٹی
لہو میں ڈوب کر بولی
کوئی پہرا نہیں دیتا
مِری تاریک گلیوں میں
میں سب کچھ ہار بیٹھی ہوں
درندوں کی حکومت میں
عمرؓ اب بھی نہیں آیا
ذرا آگے کوئی ماں تھی
مخاطب یوں خدا سے وہ
مِرے آگن میں برسوں سے
فقط فاقہ ہی پلتا ہے
کوئی آہیں نہیں سنتا
مِرے بے تاب بچوں کی
میں دروازے پہ دستک کو
زمانوں سے ترستی ہوں
عمرؓ اب کیوں نہیں آتا
عمرؓ اب کیوں نہیں آتا
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment