سواگت
گھر کا دروازہ کھلا
کتنے دن بعد اسے سانس آیا
کتنے دن بعد اسے اپنوں کی بچھڑی ہوئی خوشبو آئی
ماں نے پیشانی کو ہونٹوں سے چھوا باپ نے سر پہ ہتھیلی رکھی
دو بھتیجوں نے اسے سہما ہوا پیار کیا
سرد بھابھی نے ٹھٹھرتے ہوئے دو یاتھوں کے باٹ
اس کے جھکتے شانوں کے ترازو پہ دھرے
اور میزان کی سوئی پہ نگاہیں رکھ دیں
اس کی ہمشیر نے بے ساختہ رفتار بھری
گیلے جوتوں نے فقط چند قدم ساتھ دیا
بھائی پھیلا وہ یکایک ٹھٹھکی
پھر جھجھکتے ہوئے، سمٹے ہوئے پہلو سے ملی
اس کی بیٹی نے ذرا دوڑ کر اک جست بھری
ننھی بانہوں سے گریباں کو رفو کر ڈالا
ہچکیاں لے کے بہت دیر ہنسی
اور رو رو کے کھلونا مانگا
اس کا سویا ہوا بیٹا تھا کسی سپنے میں
جاگتے باپ کی خوشبو سے جو ٹکرا کے گرا
اس سے پہلے کہ اسے کھائی کی رات آ لیتی
باپ نے سینے سے لپٹا کے سحر کر ڈالی
اس کی بیوی نے مدارت کے لیے
برتنوں کو بڑی تیزی سے نکالا، رکھا
سرمئ چولہے کو بیدار کیا
اور پھر چھپ کے بڑے شوق سے سنگھار کیا
وحید احمد
No comments:
Post a Comment