Saturday, 28 September 2019

سواگت گھر کا دروازہ کھلا

سواگت 

گھر کا دروازہ کھلا
کتنے دن بعد اسے سانس آیا
کتنے دن بعد اسے اپنوں کی بچھڑی ہوئی خوشبو آئی
ماں نے پیشانی کو ہونٹوں سے چھوا باپ نے سر پہ ہتھیلی رکھی
دو بھتیجوں نے اسے سہما ہوا پیار کیا
طاق پر گزرے ہوئے بھائی کی تصویر ہنسی
سرد بھابھی نے ٹھٹھرتے ہوئے دو یاتھوں کے باٹ
اس کے جھکتے شانوں کے ترازو پہ دھرے
اور میزان کی سوئی پہ نگاہیں رکھ دیں
اس کی ہمشیر نے بے ساختہ رفتار بھری
گیلے جوتوں نے فقط چند قدم ساتھ دیا
بھائی پھیلا وہ یکایک ٹھٹھکی
پھر جھجھکتے ہوئے، سمٹے ہوئے پہلو سے ملی
اس کی بیٹی نے ذرا دوڑ کر اک جست بھری
ننھی بانہوں سے گریباں کو رفو کر ڈالا
ہچکیاں لے کے بہت دیر ہنسی
اور رو رو کے کھلونا مانگا
اس کا سویا ہوا بیٹا تھا کسی سپنے میں
جاگتے باپ کی خوشبو سے جو ٹکرا کے گرا
اس سے پہلے کہ اسے کھائی کی رات آ لیتی
باپ نے سینے سے لپٹا کے سحر کر ڈالی
اس کی بیوی نے مدارت کے لیے
برتنوں کو بڑی تیزی سے نکالا، رکھا
سرمئ چولہے کو بیدار کیا
اور پھر چھپ کے بڑے شوق سے سنگھار کیا

وحید احمد

No comments:

Post a Comment