تمہاری آنکھوں کی آبیاری کو صرف تھوڑا سا جل لگے گا
کہ پھر تو مِژگاں کی ڈالیوں پہ ہر ایک موسم میں پھل لگے گا
حِنائی ہاتھوں میں پھول پہنو گی جب بھی زُود آشنائے غیراں
وہ لمسِ شب گیر یاد آیا تو ہاتھ گجروں میں شٙل لگے گا
ابھی تو کیمپس کی راہداری میں قہقہے تیرے گونجتے ہیں
تمہاری سینے کی دھڑکنوں سے ردیف نکلے گی، قافیے بھی
ہمارے شعروں کو دل سے پڑھنا، ہر ایک مصرع غزل لگے گا
سجا کے رکھا ہے اس طرح کچھ تمہاری یادوں کو ہم نے جاناں
ہمارے سینے کا داغ بھی تم کو جل پہ کھِلتا کنول لگے گا
سکونِ دل ہو تو جھونپڑی کے مکین شاہوں سے کم نہیں ہیں
ہمارے دل سے یہ دل ملا لو مکان کچا محل لگے گا
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment