میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
‘کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ ’نہیں
ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے
پہنچ رہی ہے وہاں تک مِری صدا کہ نہیں
زباں پہ کچھ نہ سہی سن کے میرا حال تباہ
لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات
‘مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ ’نہیں
پڑو نہ عشق میں خورشیدؔ ہم نہ کہتے تھے
تمہیں بتاؤ کہ جی کا زیاں ہوا کہ نہیں
خورشید رضوی
No comments:
Post a Comment