دِیے سے جب دِیا جلتا رہے گا
اجالا پھُولتا پھلتا رہے گا
زمیں پر بارشیں ہوتی رہیں گی
سمندر ابر میں ڈھلتا رہے گا
تلاطم ہو کہ دریا میں سکوں ہو
نہیں ہے بانجھ آوازوں کی دھرتی
صداؤں کا نسب چلتا رہے گا
کرے گا آدمی خود پر ستم بھی
کفِ افسوس بھی ملتا رہے گا
دکھاۓ گی اثر غفلت سفر میں
کہاں تک حادثہ ٹلتا رہے گا
چھپاؤ گے اگر گلزارؔ خود کو
وجود اپنا تمہیں کھلتا رہے گا
گلزار بخاری
No comments:
Post a Comment