Sunday 29 September 2019

زرد چہرہ ہے مرا زرد بھی ایسا ویسا

زرد چہرہ ہے مِرا زرد بھی ایسا ویسا 
ہجر کا درد ہے اور درد بھی ایسا ویسا 
ایسی ٹھنڈک کہ جمی برف ہر اک خواہش پر 
سرد لہجہ تھا کوئی سرد بھی ایسا ویسا 
اب اسے فرصت احوال میسر ہی نہیں 
وہ جو ہمدرد تھا ہمدرد بھی ایسا ویسا 
یعنی اس دھول کے چھٹنے پہ بھی الزامِ جنوں 
کوئی طوفاں ہے پسِ گرد بھی ایسا ویسا 
پوری بستی میں بس اک شخص سے نسبت مجھ کو 
مجھ سے منکر ہے وہ اک فرد بھی ایسا ویسا 
عشق نے ریل کی پٹری پہ لٹایا جس کو 
تھا جواں مرد، جواں مرد بھی ایسا ویسا 
کیا تجھے ہجر کے آزار بتائے کوملؔ 
تُو تو بے درد ہے بے درد بھی ایسا ویسا 

کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment