ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب، لگی شرط
دھتکارنے والی ہوں میں سب خواب، لگی شرط
اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب، سنبھل کر
ہے گھات میں بستی کا یہ تالاب، لگی شرط
اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے؟
پھر ایک اسے فون میں رو رو کے کروں گی
پھر چھوڑ کے آ جائے گا وہ جاب، لگی شرط
اس شخص پہ بس اور ذرا کام کروں گی
سیکھے گا محبت کے وہ آداب، لگی شرط
جو دکھ کی رُتوں میں بھی ہنسی اوڑھ کے رکھیں
ہم ایسے اداکار ہیں نایاب، لگی شرط
جب چاہوں تجھے توڑ دوں میں کھول کے آنکھیں
اے چشمِ اذیت کے برے خواب! لگی شرط
کومل جوئیہ
میں تجھ کو سکھاؤں گا محبت کے وہ نغمے
ReplyDeleteتو خود ہی کرے گی مجھے آداب لگا شرط