ہُوا نہ مجھ سے کوئی ہم کلام گردش میں
دھواں ہوۓ ہیں مِرے صبح و شام گردش میں
خیال و خواب ہوا ہر زمانۂ وحشت
اتر چکے ہیں سبھی خوش خرام گردش میں
میں بھاگتا ہوں سرِ دشتِ کربلا اور پھر
مِری طلب، مِری رفتار کے منافی ہے
میں خاص شخص ہوں رہتا ہوں عام گردش میں
پنپ رہا ہے کہیں دل میں شوقِ دید و شنید
دھڑک رہے ہیں زمانے مدام گردش میں
بدل بدل کے کئی ہاتھ حشر اٹھاتا ہے
بنا رہا ہے کوئی راہ جام گردش میں
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں میں صبح و مسا
لبوں پہ رکھ کے درود و سلام گردش میں
بدلتا رہتا ہے چلنے سے مے کدے کا نظام
کہ چل چلاؤ سے رہتا ہے جام گردش میں
رہِ فنا پہ قدم رکھ کے پھنس نہ جاؤں کہیں
لگا رکھا ہے خدائی نے دام گردش میں
رکا ہوا ہوں میں اک گردشی جزیرے پر
گزر رہے ہیں مِرے صبح و شام گردش میں
رکے ہوۓ ہیں سبھی دوست کیوں فدا میرے
ملے گا ان کو یقیناً دوام گردش میں
نوید فدا ستی
No comments:
Post a Comment