Friday 27 September 2019

ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر

ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر
اپنے جیون کے شب و روز بِتا ڈالیں گے
آرزو حسن پرستی کی مٹا ڈالیں گے
زیست میں راہ نہ دیں گے کسی رنگینی کو
خوش جمالوں کے نہ احسان اٹھائیں گے کبھی
پھول خوابوں کے نہ سوچوں میں کھلائیں گے کبھی
لیکن اس بار بھی کھائی ہے خیالوں نے شکست
روک پائے ہی نہیں ضبط کے آداب ہمیں
پھر بہا لے گیا رعنائی کا سیلاب ہمیں

گلزار بخاری

No comments:

Post a Comment