ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر
اپنے جیون کے شب و روز بِتا ڈالیں گے
آرزو حسن پرستی کی مٹا ڈالیں گے
زیست میں راہ نہ دیں گے کسی رنگینی کو
خوش جمالوں کے نہ احسان اٹھائیں گے کبھی
پھول خوابوں کے نہ سوچوں میں کھلائیں گے کبھی
لیکن اس بار بھی کھائی ہے خیالوں نے شکست
روک پائے ہی نہیں ضبط کے آداب ہمیں
پھر بہا لے گیا رعنائی کا سیلاب ہمیں
اپنے جیون کے شب و روز بِتا ڈالیں گے
آرزو حسن پرستی کی مٹا ڈالیں گے
زیست میں راہ نہ دیں گے کسی رنگینی کو
خوش جمالوں کے نہ احسان اٹھائیں گے کبھی
پھول خوابوں کے نہ سوچوں میں کھلائیں گے کبھی
لیکن اس بار بھی کھائی ہے خیالوں نے شکست
روک پائے ہی نہیں ضبط کے آداب ہمیں
پھر بہا لے گیا رعنائی کا سیلاب ہمیں
گلزار بخاری
No comments:
Post a Comment