Sunday, 8 September 2019

گاؤں کے اک چھوٹے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا

گاؤں کے اک چھوٹے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا
لیکن اس کی یاد کا پودا برسوں تک شاداب رہا
فصل خزاں کی شاخ سے لپٹا بیلے کا اک تنہا پھول
کچھ کلیوں کی یاد سمیٹے راتوں کو بے خواب رہا
بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں
اس سے بچھڑ کر دُور چلے تو کوسوں تک سیلاب رہا
اپنی ساری گم شدہ بھیڑیں جمع تو کیں چرواہے نے
ان بھیڑوں کے پیچھے پیچھے پورے دن بے تاب رہا
جسم نے اپنی عمر گزاری سندھ کے ریگستانوں میں
دل کم بخت بڑا ضدی تھا، آخر تک پنجاب رہا

طالب جوہری

No comments:

Post a Comment