گاؤں کے اک چھوٹے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا
لیکن اس کی یاد کا پودا برسوں تک شاداب رہا
فصل خزاں کی شاخ سے لپٹا بیلے کا اک تنہا پھول
کچھ کلیوں کی یاد سمیٹے راتوں کو بے خواب رہا
بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں
اپنی ساری گم شدہ بھیڑیں جمع تو کیں چرواہے نے
ان بھیڑوں کے پیچھے پیچھے پورے دن بے تاب رہا
جسم نے اپنی عمر گزاری سندھ کے ریگستانوں میں
دل کم بخت بڑا ضدی تھا، آخر تک پنجاب رہا
طالب جوہری
No comments:
Post a Comment