Saturday, 28 September 2019

کولاژ

کولاژ

اس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی
پتیوں کے کنارے چمکنے لگے
پھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے

اس نے پاؤں دَھرے گھاس کے فرش پر
پاؤں کا دُودھیا پن سوا ہو گیا
سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہو گیا

اس نے دیکھا اماوس بھری رات کو
رات کے سنگِ خارا میں روزن ہوا
نور جوبن ہوا، چاند روشن ہوا

اس نے اِک بیضوی سا اشارہ کیا
سوچ کی مستطیلیں پگھلنے لگیں
خواہشوں کی تکونیں بھڑکنے لگیں

جب سلیٹ آسماں کی تپکنے لگی
اس نے بارش لکھی پور کے چاک سے
دستِ نمناک سے، لمسِ بے باک سے

اس نے رحلِ دہن پر سخن جو رکھا
ہر سماعت کے پردے کو جُزداں کیا
شاملِ جاں کیا، جزوِ ایماں کیا

اس کو چھو کر ہَوا جو مسافر ہوئی
بانس بن سارا مٗرلی منوہر کیا
سیپ گوپی ہوئی، رقص جوہر ہوا

وقت تہہ دار کاغذ کا پُتلا ہوا
بُرج اس کے اشاروں پہ چلنے لگے
رات دن انگلیوں پہ نکلنے لگے

گیلے ساحل نے جب اس کے پاؤں چکھے 
اس کے نمکیں لبوں میں فتور آ گیا
بحر کو ذائقے کا شعور آ گیا

اس نے بھادوں کے اُبٹن سے چہرہ رنگا
قوسِ رنگیں کو گردن پہ زیبا کیا
نرم سورج کی بِندیا کو ٹِکیا کیا

میں نے چٹکی سفوفِ شفق سے بھری
پھر پڑھا اس کی آنکھوں کی تحریر کو
بھر دیا کامنی مانگ کے چِیر کو

ہم نے شاخِ شبستاں سے لمحے چنے
اس نے اجلی کلائی کو گجرا دیا
میں نے بحرِ تمنا کو بجرا دیا

وحید احمد

No comments:

Post a Comment