پردیسی
وطن سے دور آ کر جو بڑی دولت کماتے ہیں
کبھی آؤ! ہمیں دیکھو کہ غم کتنا اٹھاتے ہیں
بڑا مہنگا پسینہ ہے، بڑے سستے کھلونے ہیں
یہاں ارماں لٹا کر ہم بڑے ڈالر بچاتے ہیں
اقامہ ہے، کفالت ہے، یہاں دینار ملتے ہیں
ترس جاتے ہیں اپنوں کی محبت کو تو ہم یارو
سرہانے رکھ کے تصویریں بہت آنسو بہاتے ہیں
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں اکیلے جا کے ساحل پر
ترستی خالی آنکھوں میں سمندر بھر کے لاتے ہیں
کسی بچے کی کلکاری نہیں سن پائے سالوں سے
خیالوں میں یہاں کاندھے پہ اس کو ہم سلاتے ہیں
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment