Friday, 27 September 2019

شجر بے دست و پا ہیں ابتلا کو کون روکے گا

شجر بے دست و پا ہیں ابتلاء کو کون روکے گا 
ہوا پتے گرائے گی، ہوا کو کون روکے گا؟
یہی بہتر ہے افشاء خود ہی کر دے اپنے رازوں کو
نہیں تو کل تِرے راز آشنا کو کون روکے گا؟
چلو بالفرض ہم ایماں نہیں لاتے تغیر پر
خیال اٹھتا ہے یہ، صبح و مسا کو کون روکے گا
ابھی ہے پاس مہلت اس کا رخ تبدیل کرنے کی
کماں سے دُور تیرِ برق پا کو کون روکے گا؟
وہی کیوں آ گئے ہیں سامنے دیوار کی صورت
کہا کرتے تھے جو، راہِ وفا کو کون روکے گا؟
بہا لے جائیں گی گلزارؔ لہریں بند مٹی کے
چٹانوں کے سوا سیلِ بلا کو کون روکے گا؟

گلزار بخاری

No comments:

Post a Comment