ہم شاعر ہوتے ہیں
ہم پیدا کرتے ہیں
ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں
تو شکلیں بنتی ہیں
ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں
جو مٹی تھے، وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں
ہم شاعر ہوتے ہیں
کنعان میں رہتے ہیں
جب جلوہ کرتے ہیں
تو ششدر انگشتوں کو پوریں نشتر دیتی ہیں
پھر خون ٹپکتا ہے
جو سرد نہیں ہوتا
اک سہما سا سکتہ ہوتا ہے، درد نہیں ہوتا
یونان کے ڈاکو ہیں
ہم دیوتاؤں کے محل میں نقب لگایا کرتے ہیں
ہم آسمان کا نیلا شہ دروازہ توڑتے ہیں
ہم آگ چراتے ہیں
تو اس دنیا کی یخ چوٹی سے برف پگھلتی ہے
پھر جمے ہوۓ سینے ہلتے ہیں، سانس ہمکتی ہے
اور شریانوں کے منہ کھلتے ہیں
خون دھڑکتا ہے
جیون رامائن میں
جب راون استبدادی کاروبار چلاتا ہے
ہم سیتا لکھتے ہیں
جب رتھ کے پہیے جسموں کی خاشاک کچلتے ہیں
تو گیتا لکھتے ہیں
جب ہونٹوں کے سہمے کپڑوں پر بخیہ ہوتا ہے
ہم بولا کرتے ہیں
جب منڈی سے اک اک ترازو غائب ہوتا ہے
تو جیون کو میزان پہ رکھ کر تولا کرتے ہیں
مزدوری کرتے ہیں
ہم لفظوں کے جنگل سے لکڑی کاٹا کرتے ہیں
ہم ارکشی کے ماہر ہیں
انبار لگاتے ہیں
پھر رندہ پھیرتے ہیں
پھر برما دیتے ہیں
پھر بدھ ملاتے ہیں
پھر چول بٹھاتے ہیں
ہم تھوڑے تھوڑے ہیں
اس بھری بھرائی دنیا میں ہم کم کم ہوتے ہیں
جب شہر میں جنگل در آۓ
اور اس کا چلن جنگلاۓ
تو ہم غار سے آتے ہیں
جب جنگل شہر کی زد میں ہو
اور اس کا سکون شہر آۓ
تو برگد سے نکلتے ہیں
ہم تھوڑے تھوڑے ہیں
ہم کم کم ہوتے ہیں
ہم شاعر ہوتے ہیں
وحید احمد
No comments:
Post a Comment