مجھے اب اور نا سینا
وہ تیزی سے اُدھڑتا جا رہا تھا
ہر اک دن اس کے بخیوں سے الجھ کر رات ہو جاتا
وہ روزانہ
بساطِ روز و شب پہ سانس کے مہرے چلا کر مات ہو جاتا
یہ سینہ ہے
کہ تجریدی مصور کی کوئی تصویر ہے
جس کے دھڑکتے کینوس پہ بال بکھراۓ
لکیریں چیختی ہیں
اور نقطے بین کرتے ہیں
یہ گھاؤ میرے اپنے خون نے مجھ پر لگایا تھا
مِرے بھائی
جنہیں، مجھ سے زیادہ باپ کی جاگیر پیاری تھی
یکایک پاس آۓ اور مجھ کو چیر کر دو لخت کر ڈالا
مِری ماں نے مجھے جوڑا
پھر اپنے بازوؤں کے نرم سٹریچر پہ رکھا
اور اپنے آنسوؤں کا تار دہرا کر مجھے بخیہ لگایا تھا
یہ وہ گھاؤ ہے
یہ پھٹ اس چوٹ کا ہے
جو زمانے نے لگائی تھی
میں جب تعلیم سے فارغ ہوا
تو
میرے دونوں ہاتھ سورج کی طرح چمکار دیتے تھے
بڑے لوگوں کے لو دیتے اقوال روشن تھے
عقیدے کی چمک دیتی ہوئی قندیل جلتی تھی
مگر مجھ پہ کھُلا
کہ، دو جہاں اک دوسرے سے مختلف ہیں
اور ان کے درمیاں مکتب کا پھاٹک ہے
مجھے مکتب نے روکا تو زمانے نے مجھے کھینچا
نتیجتاً میں ٹوٹا
اور پھر علم و عمل کی ملگجی سرحد پہ گر کے پارہ پارہ ہو گیا
اور پھر وقت نے ہاتھ میں سوزن لی
زمیں کے گھومتے گولے سے اک دھاگہ نکالا
اور سِینے لگ گیا
اس نے مِرے ادراک کو باریک ٹانکے سے سِیا
وجدان کے ایک ایک روزن پہ رفو کاڑھا
بلا کا بخیہ گر ہے وقت
آفت کا رفوگر ہے
وہ سِیتا بھی ہے، سمجھتا بھی ہے
او بے خبر
دیکھو
یہ دنیا درمیانی ذہنیت کے، مصلحت جُو
کند لوگوں کے لیے پیدا ہوئی ہے
یہاں حساس ہونا ایک جرم ہے
جس کی سزا کوئی نہیں دیتا
بس اپنے آپ ملتی ہے
ذرا احساس کو تم آبگینے کی طرح دہلیز پر رکھو
تمہیں معلوم ہو جاۓ گا، پامالی کسے کہتے ہیں
کیونکہ لوگ ریوڑ کی طرح پاؤں سے چلتے ہیں
نگاہوں سے نہیں چلتے
وہ سینہ کھول دیتا اور گہری سوچ میں رہتا
مِرا احساس چکنا چور ہے پھر بھی چمکتا ہے
مِرے سینے کے سب ٹانکے کھنچے ریشوں کے ہاتھوں سے
پھسلتے جا رہے ہیں
مجھے اب اور نہ سِینا
مِرا سینہ نہ سِینا
اب تو اس میں سانس بھرنے کی بھی جگہ باقی نہیں
ٹانکا بھلا کیسے بھرا جاۓ
وحید احمد
No comments:
Post a Comment