Sunday, 8 September 2019

ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے

ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے
اس کی بھی خبر کچھ نہ ملی اہلِ خبر سے
کچھ گم ہوئے اوراق روایت میں نہ آ کر
کچھ مسخ ہوئے حسنِ روایت کے اثر سے
گردش میں ہیں سب دشت و دیار و در و دیوار
وہ بھی ہیں سفر میں کہ جو نکلے نہیں گھر سے
فرسودگئ رنگِ گلستاں سے ہوں بے زار
اکتایا ہوا برگ و بر و شاخ و ثمر سے
آئے تو سہی سامنے وہ عکسِ گریزاں
آنکھیں بھی نہ جھپکوں گا گزر جانے کے ڈر سے
فارغ نہیں میں خود سے کہ رہتا ہے شب و روز
آشوب مِرے دل میں، مِرے فتنۂ سر سے

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment