ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی
کوئی پہچان لے تو اس کی حیرانی نہیں جاتی
مسلسل ہی یہیں پر ہے تعلق اتنا گہرا ہے
میں خود باہر چلا جاتا ہوں ویرانی نہیں جاتی
تمہاری بات رد کرنے کا سوچا تھا نہ سوچا ہے
میں جتنے توڑتا ہوں روز اتنے اور بنتے ہیں
میری آنکھوں سے خوابوں کی فراوانی نہیں جاتی
مجھے جو کچھ بتانا تھا وہ چپ رہ کر بتایا ہے
مگر شاید یہاں چپ کی زباں جانی نہیں جاتی
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment