Thursday, 28 November 2019

ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی

ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی
کوئی پہچان لے تو اس کی حیرانی نہیں جاتی
مسلسل ہی یہیں پر ہے تعلق اتنا گہرا ہے
میں خود باہر چلا جاتا ہوں ویرانی نہیں جاتی
تمہاری بات رد کرنے کا سوچا تھا نہ سوچا ہے
میں اب بھی مان لیتا مجھ سے اب مانی نہیں جاتی
میں جتنے توڑتا ہوں روز اتنے اور بنتے ہیں
میری آنکھوں سے خوابوں کی فراوانی نہیں جاتی
مجھے جو کچھ بتانا تھا وہ چپ رہ کر بتایا ہے
مگر شاید یہاں چپ کی زباں جانی نہیں جاتی

دانش نقوی

No comments:

Post a Comment