Friday 22 November 2019

روشنی حسب ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم

روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم
پھر بھی وہ تخت نشیں خوفزدہ رہتا ہے
اپنے حصے کی وراثت بھی نہیں مانگتے ہم
سنگ کو شیشہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں
اور اس کام کی اجرت بھی نہیں مانگتے ہم
کسی دیوار کے سائے میں ٹھہر لینے دو
دھوپ سے اتنی رعایت بھی نہیں مانگتے ہم
ساری دستاروں پہ دھبے ہیں لہو کے اظہر
ایسے کوفے میں تو عزت بھی نہیں مانگتے ہم

اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment