روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم
عمر بھر کوہ کنی کر کے صلہ مانگتے ہیں
مُفت میں تیری محبت بھی نہیں مانگتے ہم
دشمنِ شہر کو آگے نہیں بڑھنے دیتے
اور کوئی تمغۂ جرأت بھی نہیں مانگتے ہم
سنگ کو شیشہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں
اور اس کام کی اُجرت بھی نہیں مانگتے ہم
پھر بھی وہ تخت نشیں خوف زدہ رہتا ہے
اپنے حصے کی وراثت بھی نہیں مانگتے ہم
کسی دیوار کے سائے میں ٹھہر لینے دے
دھوپ سے اتنی رعایت بھی نہیں مانگتے ہم
ساری دستاروں پہ دھبے ہیں لہو کے اظہر
ایسے کوفے میں تو عزت بھی نہیں مانگتے ہم
اظہر ادیب
No comments:
Post a Comment