Wednesday, 13 November 2019

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
خوف ہے موسمِ گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائرِ ہوش کے حق میں پرِ پرواز نہ ہو
دل بہت بلبلِ شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گلزار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو
کیا قیامت ہے وہ دل توڑ رہے ہیں میرا
اس گماں پر کہ چھپا اس میں کوئی راز نہ ہو
آئینہ ہاتھ میں ہے، حسن کا نظارہ ہے
ان سے کہہ دو مِری حالت نظر انداز نہ ہو
ہو کے وہ مست مئے ناز گلے لپٹے ہیں
ہوش کمبخت کہیں تفرقہ پرداز نہ ہو
اس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا، طاقتِ پرواز نہ ہو
اہلِ دل کو جو لٹاتی ہے صدا نغمے کی
پردۂ ساز میں پنہاں تِری آواز نہ ہو
تھام لینے دو کلیجہ مجھے ہاتھوں سے جلیلؔ
قصۂ دردِ جگر کا ابھی آغاز نہ ہو

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment