لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
خوف ہے موسمِ گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائرِ ہوش کے حق میں پرِ پرواز نہ ہو
دل بہت بلبلِ شیدا کا ہے نازک گلچیں
کیا قیامت ہے وہ دل توڑ رہے ہیں میرا
اس گماں پر کہ چھپا اس میں کوئی راز نہ ہو
آئینہ ہاتھ میں ہے، حسن کا نظارہ ہے
ان سے کہہ دو مِری حالت نظر انداز نہ ہو
ہو کے وہ مست مئے ناز گلے لپٹے ہیں
ہوش کمبخت کہیں تفرقہ پرداز نہ ہو
اس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا، طاقتِ پرواز نہ ہو
اہلِ دل کو جو لٹاتی ہے صدا نغمے کی
پردۂ ساز میں پنہاں تِری آواز نہ ہو
تھام لینے دو کلیجہ مجھے ہاتھوں سے جلیلؔ
قصۂ دردِ جگر کا ابھی آغاز نہ ہو
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment