Thursday, 14 November 2019

اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے

اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے
اس کی گلی گئے تو خریدار بک گئے
لگنے لگیں ہیں مجھ سے بھی ناقص کی بولیاں
یعنی جہاں کے سارے ہی شہکار بک گئے
جس نے ہمیں خریدا، منافع کما لیا
اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بک گئے
انجام یہ نہیں تھا کہانی کا اصل میں
کیا کیجئے کہ بیچ میں کردار بک گئے
جنگل کی دھوپ میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا
قیمت لگی تو دیکھئے اشجار بک گئے
اتنا تو فرق ہے چلو اپنوں میں غیر میں
اپنے تھے شرمسار، مگر یار بک گئے
مت پوچھ ان کا بکتے محبت کے مول جو
روئے تمام عمر کہ بے کار بک گئے
کیجے شکایتیں بھلا اب کس کے روبرو
قاضی بکا یہاں، یہاں دربار بک گئے
تلوار کی جگہ وہاں بنتی ہیں چوڑیاں
جس جس قبیلے کے یہاں سردار بک گئے
لازم ہے رکھئے اپنی نظر آستین پر
سننے میں آ رہا ہے نمکخوار بک گئے
ابرک وفا کشی کا کوئی بیج تجھ میں ہے
یونہی نہیں ہیں سارے طلبگار بک گئے

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment