اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے
اس کی گلی گئے تو خریدار بک گئے
لگنے لگیں ہیں مجھ سے بھی ناقص کی بولیاں
یعنی جہاں کے سارے ہی شہکار بک گئے
جس نے ہمیں خریدا، منافع کما لیا
انجام یہ نہیں تھا کہانی کا اصل میں
کیا کیجئے کہ بیچ میں کردار بک گئے
جنگل کی دھوپ میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا
قیمت لگی تو دیکھئے اشجار بک گئے
اتنا تو فرق ہے چلو اپنوں میں غیر میں
اپنے تھے شرمسار، مگر یار بک گئے
مت پوچھ ان کا بکتے محبت کے مول جو
روئے تمام عمر کہ بے کار بک گئے
کیجے شکایتیں بھلا اب کس کے روبرو
قاضی بکا یہاں، یہاں دربار بک گئے
تلوار کی جگہ وہاں بنتی ہیں چوڑیاں
جس جس قبیلے کے یہاں سردار بک گئے
لازم ہے رکھئے اپنی نظر آستین پر
سننے میں آ رہا ہے نمکخوار بک گئے
ابرک وفا کشی کا کوئی بیج تجھ میں ہے
یونہی نہیں ہیں سارے طلبگار بک گئے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment