وہی بارش کا موسم ہے
وہی برسے ہوئے غم ہیں
وہی نادان سے ہم ہیں
وہی کاغذ کی کشتی ہے
وہی پانی کے ریلے ہیں
میرے بچپن زرا دیکھو
وہی کشتی بنائی ہے
وہ پانی پر چلائی ہے
ہمیں لگتا ہے پھر سے ہم
اسی کشتی میں بیٹھے ہیں
مگر بالکل اکیلے ہیں
تمہیں تو یاد ہے جاناں
وہ کاغذ کی بنی کشتی
کہاں کب پار جاتی ہے
ہمیشہ ڈوب جاتی ہے
چلو وعدہ کیا تم سے
چلو وعدہ نبھائیں گے
فقط تم پار اترو گے
فقط ہم ڈوب جائیں گے
خلیل الرحمان قمر
No comments:
Post a Comment