Wednesday 13 November 2019

وہی بارش کا موسم ہے

وہی بارش کا موسم ہے
وہی برسے ہوئے غم ہیں
وہی نادان سے ہم ہیں
وہی کاغذ کی کشتی ہے
وہی پانی کے ریلے ہیں
میرے بچپن زرا دیکھو
وہی پھر کھیل کھیلا ہے
وہی کشتی بنائی ہے
وہ پانی پر چلائی ہے
ہمیں لگتا ہے پھر سے ہم
اسی کشتی میں بیٹھے ہیں
مگر بالکل اکیلے ہیں
تمہیں تو یاد ہے جاناں
وہ کاغذ کی بنی کشتی
کہاں کب پار جاتی ہے
ہمیشہ ڈوب جاتی ہے
چلو وعدہ کیا تم سے
چلو وعدہ نبھائیں گے
فقط تم پار اترو گے
فقط ہم ڈوب جائیں گے

خلیل الرحمان قمر

No comments:

Post a Comment