Saturday 16 November 2019

سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے

سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے
سارا کہہ دوں یا جِتنا میٹھا ہے
میں نے چکھا ہے میری بستی میں
زہر میٹھا ہے، شہد کڑوا ہے
رونا بے کار تو نہیں جاتا
اپنی گڑیا سے میں نے سیکھا ہے
لفظ روٹی میں کوئی جادو ہے
اتنا پھیلا ہے، جتنا سوچا ہے
میری سوچوں میں یوں تسلسل ہے
جسم ٹوٹا ہے، کمرہ بِکھرا ہے
یار! صف میں جگہ نہیں دو گے
یہ جنازہ تو میرا اپنا ہے
ایک جملہ ہے، جیسے مرہم ہو
"چھوڑ پگلے یہی تو دنیا ہے"
اپنے سکے اٹھا کے لے جاؤ
میں نے کاسے میں پانی پینا ہے
یہ تصوف کا مسئلہ عابی
جتنا ٹیڑھا ہے، اتنا سیدھا ہے

عابی مکھنوی

No comments:

Post a Comment