سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے
سارا کہہ دوں یا جِتنا میٹھا ہے
میں نے چکھا ہے میری بستی میں
زہر میٹھا ہے، شہد کڑوا ہے
رونا بے کار تو نہیں جاتا
لفظ روٹی میں کوئی جادو ہے
اتنا پھیلا ہے، جتنا سوچا ہے
میری سوچوں میں یوں تسلسل ہے
جسم ٹوٹا ہے، کمرہ بِکھرا ہے
یار! صف میں جگہ نہیں دو گے
یہ جنازہ تو میرا اپنا ہے
ایک جملہ ہے، جیسے مرہم ہو
"چھوڑ پگلے یہی تو دنیا ہے"
اپنے سکے اٹھا کے لے جاؤ
میں نے کاسے میں پانی پینا ہے
یہ تصوف کا مسئلہ عابی
جتنا ٹیڑھا ہے، اتنا سیدھا ہے
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment