فضا میں کیسی اداسی ہے، کیا کہا جائے
عجیب شام یہ گزری ہے، کیا کہا جائے
کئی گمان ہمیں زندگی پہ گزرے ہیں
یہ اجنبی ہے کہ اپنی ہے، کیا کہا جائے
وہ دھوپ دشمنِ جاں تھی سو تھی خموش تھے ہم
یہاں بھی دل پہ اداسی کا چھا رہا ہے دھواں
یہ رنگ و نور کی بستی، ہے کیا کہا جائے
کوئی پیام ہمارے لیے نہیں، نہ سہی
مگر صدا تو اسی کی ہے، کیا کہا جائے
ہمارے عہد کے الجھے ہوئے سوالوں کا
جواب صرف خموشی ہے، کیا کہا جائے
زباں پہ شکر و شکایت کے سو فسانے ہیں
مگر جو دل پہ گزرتی ہے، کیا کہا جائے
تمام شہر کو کیوں چپ لگی ہے، کیا جانیں
گھٹن دلوں میں یہ کیسی ہے، کیا کہا جائے
شناخت دوست نہ دشمن کی معتبر مخمورؔ
ہر ایک شکل ہی دھندلی ہے، کیا کہا جائے
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment