Friday 22 November 2019

کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی

کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی
کیا خبر تھی کہ چراغوں کو نگل جائے گی
مجھ کو اس واسطے بارش نہیں اچھی لگتی
جب بھی آئے گی، کوئی یاد اٹھا لائے گی
اس نے ہنستے ہوئے کر لی ہیں علیحدہ راہیں
میں سمجھتا تھا کہ بچھڑے گی تو مر جائے گی
میں مسافر ہوں بہر طور چلا جاؤں گا
تُو میرے بعد بھلا کیسے سنبھل پائے گی
میری آواز کو ترسے گی سماعت تیری
عمر بھر تجھ کو مِری کال نہیں آئے گی

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment