نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے
پسِ حروف سہی روشنی ضروری ہے
کہیں سے لاؤ کسی زلفِ عنبریں کی ہوا
یہ اب جو حبس ہے اس میں کمی ضروری ہے
اب اس کے قد کے برابر اسے بھی لایا جائے
عذاب یہ ہے کہ تکمیلِ داستاں کے لیے
جو حرف بس میں نہیں ہے وہی ضروری ہے
یہ آگ خیمۂ جاں تک پہنچ نہ جائے کہیں
سلگتی آنکھ میں تھوڑی نمی ضروری ہے
وہ آنکھ کہتی ہے اس زندگی کے منظر میں
سمندروں پہ جھکی شام بھی ضروری ہے
ذرا سیِ مٹی کسی شے میں باندھ لے اظہرؔ
سفر میں گھر کی نشانی بڑی ضروری ہے
اظہر ادیب
No comments:
Post a Comment