Wednesday 20 November 2019

اے مری بے سہاگ تنہائی

اے مِری بے سہاگ تنہائی

اس سے پہلے کہ سوچ کا کندن
شامِ غم کے اجاڑ صحرا میں
جل بجھے، بجھ کے راکھ ہو جائے
اس سے پہلے کہ چاند کا جھومر
درد کی جھیل میں اتر جائے
اور خواہش کی چاندنی کا غبار
وقت کی آنکھ میں بکھر جائے
اس سے پہلے کہ اپنے دل کی رگیں
ایک اک کر کے ٹوٹتی جائیں
اور طنابیں گلاب خوابوں کی
اپنے ہاتھوں سے چھوتی جائیں
اس سے پہلے کہ گھیر لے مجھ کو
ہر طرف سے جلوس رسوائی
قربتوں کے نشاں مٹا ڈالے
ہجر کے زلزلوں کی انگڑائی
اے میری بے سہاگ تنہائی
مجھ سے پُرسہ لے اپنے پیاروں کا
بجھتے اشکوں کے ان ستاروں کا
جو ہر اک اجنبی کے رستے میں
نور کی چادریں بچھاتے تھے
جو کسی صبح زاد کی دھن میں
رات بھر روشنی لٹاتے تھے
اے میری بے سہاگ تنہائی
آ میرے پاس مجھ سے پُرسہ لے
ان گلابوں کا، ان سحابوں کا
حبس کی رُت میں جو برستے تھے
جن کے پل بھر کے لمس کی خاطر
موسموں کے بدن ترستے تھے
اے مِری بے سہاگ تنہائی
اس سے پہلے کہ سانس تھک جائے
شوق ڈھونڈے نئی گزر گاہیں
اس سے پہلے کہ بے نشاں ٹھہریں
حسرتِ قُرب کی سبھی راہیں
میری گردن میں ڈال دے بانہیں
جز مِرے کون تجھ کو چاہے گا
میں بھی تیری طرح اکیلا ہوں
آنکھ میں تشنگی کا صحرا ہے
دل میں پاتال کی سی گہرائی
اور کیا ہو رہِ شناسائی
اے مِری بے سہاگ تنہائی

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment