حقیقی سوچ کی گہرائی مار ڈالے گا
بڑھے گا جھوٹ تو سچائی مار ڈالے گا
میں دوستوں کے تو چُنگل سے بچ گیا ہوں مگر
میں جانتا ہوں مجھے بھائی مار ڈالے گا
میں سارے شہر کی تنہائیوں کا وارث ہوں
یہ اس کے کام نہ آئی تو دیکھنا اک دن
مسیحا خود ہی مسیحائی مار ڈالے گا
جو میرا ہو نہیں پایا وہ تیرا کیا ہو گا
رقیب تجھ کو بھی ہرجائی مار ڈالے گا
اٹھاۓ سنگ محبت کو ڈھونڈتے ہیں لوگ
اگر کسی نے کہیں پائی، مار ڈالے گا
مجھے یقین ہے باقرؔ کہ آج کا مُسلم
جو کُوڑا پھینکے گی وہ مائی مار ڈالے گا
مرید باقر انصاری
No comments:
Post a Comment