Friday 22 November 2019

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
چڑیوں نے رات شور مچایا درخت پر
موسم تمہارے ساتھ کا جانے کدھر گیا
تم آئے اور بُور نہ آیا درخت پر
دیکھا نہ جائے دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر
سب چھوڑے جا رہے تھے سفر کی نشانیاں
میں نے بھی ایک نقش بنایا درخت پر
اب کے بہار آئی ہے شاید غلط جگہ
جو زخم دل پہ آنا تھا آیا درخت پر
ہم دونوں اپنے اپنے گھروں میں مقیم ہیں
پڑتا نہیں درخت کا سایہ درخت پر​

عباس تابش

No comments:

Post a Comment