کبھی تو سانس تِری یاد سے جدا نکلے
ہماری شب کے مقدر سے رتجگا نکلے
عجب نہیں کہ مِرے بعد میرا کُل ترکہ
ہرا بھرا سا بس اک زخم اور دِیا نکلے
بھنور نے گھیر لیا ہے، سو بچ نہ پاؤں گا
یہاں تو بولتے رہنا بہت ضروری ہے
سخن کے شہر میں گونگے کدھر سے آ نکلے
تمہاری آہ پہ ماتم بدست ہے دنیا
ہمارے درد پہ ہر منہ سے قہقہہ نکلے
وہ خواب نیند کی سولی پہ بین کرتا ہے
جو سُرخ آنکھ کی زد سے مَرا ہوا نکلے
ہمارے چاہنے والوں کو ہم سے شکوہ ہے
سمجھ رہے تھے وہ پتھر ہم آئینہ نکلے
فرخ عدیل
No comments:
Post a Comment