Sunday 17 November 2019

کبھی تو سانس تری یاد سے جدا نکلے

کبھی تو سانس تِری یاد سے جدا نکلے
ہماری شب کے مقدر سے رتجگا نکلے
عجب نہیں کہ مِرے بعد میرا کُل ترکہ
ہرا بھرا سا بس اک زخم اور دِیا نکلے
بھنور نے گھیر لیا ہے، سو بچ نہ پاؤں گا
یہ عشق کھیل نہیں ہے کہ راستہ نکلے
یہاں تو بولتے رہنا بہت ضروری ہے
سخن کے شہر میں گونگے کدھر سے آ نکلے
تمہاری آہ پہ ماتم بدست ہے دنیا
ہمارے درد پہ ہر منہ سے قہقہہ نکلے
وہ خواب نیند کی سولی پہ بین کرتا ہے
جو سُرخ آنکھ کی زد سے مَرا ہوا نکلے
ہمارے چاہنے والوں کو ہم سے شکوہ ہے
سمجھ رہے تھے وہ پتھر ہم آئینہ نکلے

فرخ عدیل

No comments:

Post a Comment