سارے پردے گریں دیدار تلک پہنچوں میں
اے مقابل! تِرے کردار تلک پہنچوں میں
دنیا والے مجھے عزت کی نظر سے دیکھیں
کتنا گر جاؤں کہ معیار تلک پہنچوں میں
بھوک اور ننگ! تِری کون بھلا سنتا ہے
بے گناہی نہیں، الزام ہی ثابت کر دو
کچھ نہیں اور چلو دار تلک پہنچوں میں
کیسے بے کار ہیں یہ گھات لگانے والے
جی میں آتا ہے کہ خود وار تلک پہنچوں میں
خوابِ غفلت کی وبا پھیلی ہے اس بستی میں
اب کسی ایک تو بیدار تلک پہنچوں میں
میں تِری راہ میں اک عمر سے بیٹھا سوچوں
راہ کٹ جائے تو گھر بار تلک پہنچوں میں
تجھے سمجھاؤں گا پھر لکھتا ہے کیا کیا ابرک
پہلے خود آپ تو اشعار تلک پہنچوں میں
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment