ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
ہم کو کیا اے مہ جبیں! گر چاند پیشانی ہوئی
سرد مہری کا تِری ساقی! نتیجہ یہ ہوا
آگ کے مولوں جو بکتی تھی وہ مے پانی ہوئی
اللہ اللہ پھوٹ نکلا رنگ چاہت کا مِری
ہم کو ہو سکتا نہیں دھوکہ ہجومِ حشر میں
تیری صورت ہے ازل سے جانی پہچانی ہوئی
لے اڑی گھونگٹ کے اندر سے نگاہِ مست ہوش
آج ساقی نے پلائی مے ہمیں چھانی ہوئی
جان کر دشمن جو لپٹے جان میں جاں آ گئی
بارک اللہ کس مزے کی تم سے نادانی ہوئی
کر گئی دیوانگی ہم کو بری ہر جرم سے
چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی
خون کی چادر مبارک با حیا تلوار کو
میان سے باہر نکل کر بھی نہ عریانی ہوئی
رات کو چھپ کر نکل جاتی ہے آنکھوں سے جلیلؔ
سیر دیکھو نیند بھی کمبخت سیلانی ہوئی
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment