Tuesday, 19 November 2019

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا
الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا
کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا
پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا
آرام، عیش خوب ہے ویران گھر میں اب
تنہائیوں سے جب ڈرے، کمرہ بدل گیا
اتنا تو گر نہ پایا کہ گالی میں دے سکوں
گالی پہ مسکرایا، ہاں اتنا بدل گیا
پلکیں بھی ڈرتے ڈرتے جھپکتا ہوں آج کل
اس بیچ گر جہان کا نقشہ بدل گیا
ہر بار تیری شرطوں پہ تجھ کو منایا ہے
ہر بار زندگی تِرا جھگڑا بدل گیا
صیاد نے اڑا دیا پنچھی فضاؤں میں
پنچھی کو یوں لگا ہے کہ پنجرہ بدل گیا
سب کچھ بدل گیا ہے بجز ایک عذر کے
کیا کیجئے جناب زمانہ بدل گیا
ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی، وہ بلانا بدل گیا
ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment