آوارگی میں محسن اس کو بھی ہنر جانا
اقرار وفا کرنا، پھر اس سے مکر جانا
جب خواب نہیں کوئی، کیا زندگی کرنا
ہر صبح کو جی اٹھنا، ہر رات کو مر جانا
شب بھر کے ٹھکانے کو اک چھت کے سوا کیا ہے
ایسا نہ ہو دریا میں تم بارِ گِراں ٹھہرو
جب لوگ زیادہ ہوں، کشتی سے اتر جانا
سُقراط کے پینے سے کیا مجھ پہ عیاں ہوتا
خود زہر پیا میں نے، تب اس کا اثر جانا
جب بھی نظر آؤ گے ہم تم کو پکاریں گے
چاہو تو ٹھہر جانا، چاہو تو گزر جانا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment