Thursday 28 November 2019

عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے

عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے
مٹی پہ خود کو پھینک دیا اور سو گئے
دونوں کو مار دے گا یہ مشترکہ المیہ
مجبور بھی نہیں تھے مگر دور ہو گئے
وہ لوگ ہائے آنکھ کی بینائی جیسے لوگ
پل بھر کو میرے ہاتھ لگے اور کھو گئے
ممکن ہے تیری نسل بھی مقروض غم رہے
گریہ گزار تیرے تجھے اتنا رو گئے
میں نے ہوا کو صرف تِرا واسطہ دیا
جھونکے مِرے چراغ کے پہلو میں سو گئے

راکب مختار

No comments:

Post a Comment