عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے
مٹی پہ خود کو پھینک دیا اور سو گئے
دونوں کو مار دے گا یہ مشترکہ المیہ
مجبور بھی نہیں تھے مگر دور ہو گئے
وہ لوگ ہائے آنکھ کی بینائی جیسے لوگ
ممکن ہے تیری نسل بھی مقروض غم رہے
گریہ گزار تیرے تجھے اتنا رو گئے
میں نے ہوا کو صرف تِرا واسطہ دیا
جھونکے مِرے چراغ کے پہلو میں سو گئے
راکب مختار
No comments:
Post a Comment