جھوٹی افواہیں اڑانے میں لگے رہتے ہیں
لوگ بس باتیں بنانے میں لگے رہتے ہیں
حاکمِ شہر تجھے قتل کریں گے یہی لوگ
جو تِرے جوتے اٹھانے میں لگے رہتے ہیں
پہلے تو لوٹتے رہتے تھے لٹیرے اور اب
دینداری کی سند لے کے کئی لوگ یہاں
نت نئی لاشیں گرانے میں لگے رہتے ہیں
میں جو سچ بولتا ہوں یوں بھی زمانے والے
انگلیاں مجھ پہ اٹھانے میں لگے رہتے ہیں
اتنا مالک میری شہرت کو بڑھا دیتا ہے
جتنا وہ مجھ کو دبانے میں لگے رہتے ہیں
دشمنی میری کسی سے بھی نہیں ہے باقؔر
کِیل کیوں میرے سرہانے میں لگے رہتے ہیں
مرید باقر انصاری
No comments:
Post a Comment