واہمہ
رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے
چرمرائے کہ کوئی آیا،۔ کوئی آیا ہے
اور ہم شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
گو کہ معلوم ہے، تُو ہے نہ تیرا سایا ہے
ہم کہ دیکھیں کبھی دالان، کبھی سوکھا چمن
پھر سے ایک بار تیری خواب سی آنکھیں دیکھیں
پھر تیرے ہجر کے ہاتھوں ہی بھلے مارے جائیں
ہم تجھے اپنی صداؤں میں بسانے والے
اتنا چیخیں کہ تیرے وہم لپٹ کر روئیں
پر تیرے وہم بھی تیری ہی طرح قاتل ہیں
سو وہی درد ہے جاناں کہو کیسے سوئیں
بس اسی کرب کے پہلو میں گزارے ہیں پہر
بس یونہی غم کبھی کافی، کبھی تھوڑے آئے
پھر اچانک کسی لمحے میں جو چٹخے پتے
ہم وہی شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
صہیب مغیرہ صدیقی
کمال ھی کمال
ReplyDelete