Wednesday, 13 November 2019

یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں

یہ جو سر نیچے کیے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں
جان ہم سبزۂ خط پر دے کر
زہر کے گھونٹ پیے بیٹھے ہیں
دل کو ہم ڈھونڈتے ہیں چار طرف
اور یہاں آپ "لیے" بیٹھے ہیں
واعظو! چھیڑو نہ رندوں کو بہت
یہ سمجھ لو کہ پیے بیٹھے ہیں
گوشے آنچل کے تِرے سینے پر
ہاۓ کیا چیز لیے بیٹھے ہیں
دستِ وحشت کو خبر کر دے کوئی
ہم گریبان سیئے بیٹھے ہیں
ہاۓ پوچھو نہ تصور کے مزے
گود میں تم کو لیے بیٹھے ہیں
آپ کے ناز اٹھانے والے
جان کو صبر کیے بیٹھے ہیں
بل جبیں پر ہے خدا خیر کرے
آج وہ "تیغ" لیے بیٹھے ہیں
جان دے دیں گے تمہارے در پر
ہم اب اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں
ذکر کیا جام و سبو کا کہ جلیلؔ
ایک مے خانہ پیے بیٹھے ہیں

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment