یہ جو سر نیچے کیے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں
جان ہم سبزۂ خط پر دے کر
زہر کے گھونٹ پیے بیٹھے ہیں
دل کو ہم ڈھونڈتے ہیں چار طرف
واعظو! چھیڑو نہ رندوں کو بہت
یہ سمجھ لو کہ پیے بیٹھے ہیں
گوشے آنچل کے تِرے سینے پر
ہاۓ کیا چیز لیے بیٹھے ہیں
دستِ وحشت کو خبر کر دے کوئی
ہم گریبان سیئے بیٹھے ہیں
ہاۓ پوچھو نہ تصور کے مزے
گود میں تم کو لیے بیٹھے ہیں
آپ کے ناز اٹھانے والے
جان کو صبر کیے بیٹھے ہیں
بل جبیں پر ہے خدا خیر کرے
آج وہ "تیغ" لیے بیٹھے ہیں
جان دے دیں گے تمہارے در پر
ہم اب اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں
ذکر کیا جام و سبو کا کہ جلیلؔ
ایک مے خانہ پیے بیٹھے ہیں
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment