Wednesday 13 November 2019

قاصد آیا مگر جواب نہیں

قاصد آیا، مگر جواب نہیں 
میرے لکھے کا بھی جواب نہیں 
خُم تو ہے ساقیا شراب نہیں 
آسماں ہے، اور آفتاب نہیں 
بن کے بت سب وہ کہہ گزرتے ہیں 
بے دہانی تِرا جواب نہیں 
گرچہ دنیا ہے آئینہ خانہ 
میرا ثانی، تِرا جواب نہیں 
بن گیا ہے نقاب چہرے کی 
کہ اترتا کبھی عتاب نہیں 
رخ سے افشاں چھڑا کے کہتے ہیں 
آج تاروں میں ماہتاب نہیں 

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment