قاصد آیا، مگر جواب نہیں
میرے لکھے کا بھی جواب نہیں
خُم تو ہے ساقیا شراب نہیں
آسماں ہے، اور آفتاب نہیں
بن کے بت سب وہ کہہ گزرتے ہیں
گرچہ دنیا ہے آئینہ خانہ
میرا ثانی، تِرا جواب نہیں
بن گیا ہے نقاب چہرے کی
کہ اترتا کبھی عتاب نہیں
رخ سے افشاں چھڑا کے کہتے ہیں
آج تاروں میں ماہتاب نہیں
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment