ہِجر کی آنکھوں سے آنکھیں مِلاتے جائیے
ہِجر میں کرنا ہے کیا، یہ تو بتاتے جائیے
بن کے خُوشبو کی اداسی رہیے دل کے باغ میں
دُور ہوتے جائیے، نزدیک آتے جائیے
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
رہ گئی اُمید تو برباد ہو جاؤں گا میں
جائیے تو پھر مجھے سچ مُچ بھلاتے جائیے
زندگی کی انجمن کا بس یہی دستور ہے
بڑھ کے مِلیے اور مِل کر دُور جاتے جائیے
آخری رشتہ تو ہم میں اِک خُوشی اِک غم کا تھا
مُسکراتے جائیے، آنسو بہاتے جائیے
وہ گلی ہے اِک شرابی چشمِ کافر کی گلی
اس گلی میں جائیے تو لڑکھڑاتے جائیے
آپ کو جب مجھ سے شکوہ ہی نہیں کوئی تو پِھر
آگ ہی دل میں لگانی ہے، لگاتے جائیے
کُوچ ہے خوابوں سے تعبیروں کی سِمتوں میں تو پِھر
جائیے، پر دم بہ دم برباد جاتے جائیے
آپ کا مہمان ہوں میں، آپ میرے میزبان
سو مجھے زہرِ مروت تو پِلاتے جائیے
ہے سرِ شب اور مرے گھر میں نہیں کوئی چراغ
آگ تو اس گھر میں جاناں لگاتے جائیے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment