میری محدود بصارت کا نتیجہ نِکلا
آسماں میرے تصوّر سے بھی ہلکا نِکلا
روزِ اوّل سے ہے فطرت کا رقیب، آدم زاد
دُھوپ نِکلی تو میرے جسم سے سایا نِکلا
جب بھی اُٹھا کوئی فِتنہ، مُجھے محسوس ہوا
سرِ دریا تھا چراغاں، کیا اجل رقص میں تھی
بُلبُلہ جب کوئی ٹوٹا تو شرارا نِکلا
بات جب تھی کہ سرِ شام فروزاں ہوتا
رات جب ختم ہوئی، صبح کا تارا نِکلا
مدّتوں بعد جو رویا ہوں، تو یہ سوچتا ہوں
آج تو سینۂ صحرا سے بھی دریا نِکلا
کچھ نہ تھا، کچھ بھی نہ تھا، جب میرے آثار کُھدے
ایک دل تھا، سو کئی جگہ سے ٹُوٹا نِکلا
لوگ شہ پارۂ یکجائی جسے سمجھے تھے
اپنی خلوت سے جو نکلا تو بِکھرتا نِکلا
میرا ایثار میرے زعم میں بے اجر نہ تھا
اور مَیں اپنی عدالت میں بھی جُھوٹا نِکلا
وہی بے انت خلا ہے، وہی بے سمت سفر
میرا گھر، میرے لیے عالمِ بالا نِکلا
زندگی ریت کے ذرّات کی گِنتی تھی ندیمؔ
کیا ستم ہے کہ، عدم وہی صحرا نِکلا
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment