Thursday 26 July 2012

ہے جس کے ہات میں پتھر اسے گماں بھی نہیں

ہے جِس کے ہات میں پتھر اسے گماں بھی نہیں
کہ فکرِ آئینۂ جسم و جاں، یہاں بھی نہیں
جو بات تیری نظر میں ہے اور مِرے دل میں
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے
کہ رہنے کا متحمّل تو یہ مکاں بھی نہیں
زمیں پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں
سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول
وہ ہمقدم ہے مِرا جو مزاج داں بھی نہیں
نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں
مِرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں 

جمال احسانی

No comments:

Post a Comment