Wednesday 1 August 2012

کوئی بھی حرف دعا اب اثر نہیں رکھتا

کوئی بھی حرفِ دُعا اب اثر نہیں رکھتا
میرا خُدا بھی تو مُجھ پر نظر نہیں رکھتا
ہوا کو کس لئے بے چِہرگی کا صدمہ ہے
یہاں تو کوئی بھی شانوں پہ سر نہیں رکھتا
وہ دشتِ خواب ہو ویرانہ ہو کہ صحرا ہو
جنوں کی راہ میں حدِ سفر نہیں رکھتا
انا ہو کس طرح آزاد جاں کے محبس سے
میرا وجود ہے دیوار، در نہیں رکھتا
بتاؤں کیسے جو میرے گُماں کا مُمکن ہے
ہوا کے دوش پہ رہتا ہے گھر نہیں رکھتا
نہ جانے کیا ہوا اُس کو کہ ایک مُدت سے
دِیا جلا کے سرِ راہ گزر نہیں رکھتا
بھنور کا اور بگولوں کا رقص جاری ہے
وہ دائروں کے مقدر میں ڈر نہیں رکھتا

شہناز مزمل

No comments:

Post a Comment