Tuesday, 21 August 2012

اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے کوئی گیت سنیں تو لکھیں بھی

اندر سے کوئی گھنگھرو چھَنکے کوئی گیت سنیں تو لِکھیں بھی
ہم دھیان کی آگ میں تپتے ہیں کچھ اور تپیں تو لِکھیں بھی
یہ لوگ بے چارے کیا جانیں کیوں ہم نے حرف کا جوگ لیا
اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی، اس آگ جلیں تو لِکھیں بھی
دن رات ہوئے ہم وقفِ رفُو، اب کیا محفل، کیا فکرِ سخن
یہ ہات رُکیں تو سوچیں بھی، یہ زخم سِلیں تو لِکھیں بھی
ان دیواروں‌ سے کیا کہنا، یہ پتھر کس کی سنتے ہیں
وہ شہر ملے تو روئیں بھی، وہ لوگ ملیں تو لِکھیں بھی
خالی ہے من کشکول اپنا، کاغذ پہ الٹ کے سرمایہ
جو کَشٹ کمائے لکھ ڈالے۔ دُکھ اور سہیں تو لِکھیں بھی
یہ میلانوں کے سوداگر، یہ رحجاناں کے شعبدہ گر
جیبوں پہ سجاتے ہیں چوٹیں، کچھ دل پہ سہیں تو لِکھیں بھی

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment