خواہشوں کے زہر میں اخلاص کا رس گھول کر
وہ تو پتّھر ہو گیا، دو چار دن ہنس بول کر
دِل ہجومِ غم کی زِد میں تھا، سنبھلتا کب تلک
اِک پرندہ آندھیوں میں رہ گیا پَر تول کر
اپنے ہونٹوں پرسجا لے قیمتی ہِیروں سے لفظ
آج اُس کی حدِ بخشش ہے تیرے سر سے بلند
آج اپنے سر سے بھی اُونچا ذرا کشکول کر
بند ہاتھوں کا مُقدّر تھیں سبھی کِرنیں مگر
سارے جُگنو اُڑ گئے دیکھا جو مُٹّھی کھول کر
شہر والے جُھوٹ پر رکھتے ہیں بنیادِ خلُوص
مُجھ کو پچھتانا پڑا محسنؔ! یہاں سچ بول کر
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment