Monday 13 August 2012

خواہشوں کے زہر میں اخلاص کا رس گھول کر

خواہشوں کے زہر میں اخلاص کا رس گھول کر
وہ تو پتّھر ہو گیا، دو چار دن ہنس بول کر
دِل ہجومِ غم کی زِد میں تھا، سنبھلتا کب تلک
اِک پرندہ آندھیوں میں رہ گیا پَر تول کر
اپنے ہونٹوں پرسجا لے قیمتی ہِیروں سے لفظ
اپنی صُورت کی طرح باتیں بھی تو انمول کر
آج اُس کی حدِ بخشش ہے تیرے سر سے بلند
آج اپنے سر سے بھی اُونچا ذرا کشکول کر
بند ہاتھوں کا مُقدّر تھیں سبھی کِرنیں مگر
سارے جُگنو اُڑ گئے دیکھا جو مُٹّھی کھول کر
شہر والے جُھوٹ پر رکھتے ہیں بنیادِ خلُوص
مُجھ کو پچھتانا پڑا محسنؔ! یہاں سچ بول کر

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment