زلف ریشم ہے تو چہرہ اجالوں جیسا
وہ تو لگتا ہے، تروتازہ گُلابوں جیسا
اس کی باتیں تو ہیں گنگھور گھٹاؤں جیسی
اس کا مخمُور سا لہجہ ہے شرابوں جیسا
خود ہی کھلتا ہے مگر مجھ پہ بھی تھوڑا تھوڑا
اِتنا مشکل ہے کہ لگتا ہے نِصابوں جیسا
اس کے دل میں بھی کوئی بات رہی ہو گی
مجھ سے روٹھے تو وہ لگتا ہے خرابوں جیسا
جاگنا شب کا، مُجھے اس نے سکھایا قیصر
رَتجگُوں میں بھی اترتا ہے جو خوابوں جیسا
وہ تو لگتا ہے، تروتازہ گُلابوں جیسا
اس کی باتیں تو ہیں گنگھور گھٹاؤں جیسی
اس کا مخمُور سا لہجہ ہے شرابوں جیسا
خود ہی کھلتا ہے مگر مجھ پہ بھی تھوڑا تھوڑا
اِتنا مشکل ہے کہ لگتا ہے نِصابوں جیسا
اس کے دل میں بھی کوئی بات رہی ہو گی
مجھ سے روٹھے تو وہ لگتا ہے خرابوں جیسا
جاگنا شب کا، مُجھے اس نے سکھایا قیصر
رَتجگُوں میں بھی اترتا ہے جو خوابوں جیسا
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment