Wednesday, 22 August 2012

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا
آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر لے کے آ گیا
دیکھو تو کیسے چاند کی انگلی پکڑ کے میں
اس شوخ سے مِلن کی سحر لے کے آ گیا
کس زعم میں نجانے، منانے گیا اسے
تہمت سی ایک، اپنے ہی سر لے کے آ گیا
قصہ ہی جس سے کشتِ تمنا کا، ہو تمام
خرمن کے واسطے وہ شرر لے کے آ گیا
اب سوچتا ہوں اُس سے، طلب میں نے کیا کِیا
ماجدؔ یہ میں کہ زخمِ نظر لے کے آ گیا

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment